سلطان محمود غزنوی کا زمانہ تھا* 

  ایک بوڑھا پریشان اپنے گھر میں ٹہل رہا تھا وہ بے چین تھا




*سلطان محمود غزنوی کا زمانہ تھا* 

ایک بوڑھا پریشان اپنے گھر میں ٹہل رہا تھا وہ بے چین تھا 

اتنے میں اس کا دوست محمد عالم اس کے گھر آیا اس نے اپنے دوست کو پریشان دیکھا تو پریشانی کا سبب جاننا چاہا 

" کیا ہوا میرے دوست تم کیوں پریشان ہو کیا سبب ہے کہ تم بے چین ہو" 

اس پر بوڑھے شریف نے  کچھ کہنا چاہا لیکن پھر کچھ سوچ کر رک گیا اور پھر ٹہلنے لگا 

" کیا بات ہے کونسی پریشانی ہے مجھے بھی تو بتائو شاید میں تمہاری کچھ مدد کرسکوں"  عالم نے پھر اس سے پوچھا 

" بات یہ ہے کہ تمہیں پتا ہوگا نا میری بیٹی ذکیہ بہت خوبصورت ہے کچھ دن پہلے ہم جنگل میں کام کررہے تھے کہ سلطان  کے وزیر خاص کے بیٹے کا گذر یہاں سے ہوا وہ جنگل میں شکار کرنے آیا تھا اس نے میری بیٹی کو دیکھا اسے وہ پسند آگئی اس نے مجھ سے کہا کہ وہ پانچ دن بعد آئیگا اور میری بیٹی کو لیجائیگا تب سے میں بہت پریشان ہوں ذکیہ کی منگنی اس کے چاچازاد عبدالمنان سے ہوچکی ہے اب میں اسے شہزادے کے حوالے کردوں  یہ ممکن نہیں ہے میں شہزادے کو کیسے روکوں مجھے سمجھ نہیں آرہا " شریف کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے عالم نے ہمدردی سے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور بولا 

" بات واقعی پریشانی کی ہے میرے دوست کیا تم سلطان کے پاس درخواست لیکر گئے ہو؟" 

" نہیں اگر لیکر جائوں بھی تو کیا سلطان مجھ سے انصاف کریگا اور جب سامنے اس کے وزیر خاص کا بیٹا ہو ممکن ہی نہیں" بوڑھے شریف نے مایوسی سے کہا 

" نہیں تم مایوس نا ہو شریف سنا ہے سلطان بہت انصاف پسند ہے اس نے کئی غریب اور مسکین لوگوں سے انصاف کیا ہے تم ایک بار آزما کر دیکھو سلطان کے دربار تک تم میرے واسطے سے بہت جلد پہنچ جائوگے" عالم نے کہا اور شریف نے اس کی بات مان لی 

عالم کی مہربانیوں سے وہ اگلی صبح وہ سلطان محمود غزنوی کے سامنے تھا جب اس کی باری آئی تو اس نے کہنا شروع کیا 

" سلطان عالی جان کی امان پائوں تو عرض کروں" شریف نے کہا 

" ہماری ایک ہی بیٹی ہے اس منگنی ہوچکی ہے بات دراصل یہ ہے کہ کچھ دنوں پہلے میں اور میری بیٹی جنگل میں کام کررہے تھے کہ آپ کے وزیر خاص کے بیٹے  کا گذر ہوا اس کو میری بیٹی پسند آگئی اس نے کہا کہ وہ پانچ دن بعد میری بیٹی کو لیجائیگااگر  میں نا مانا تو وہ زبردستی کریگا آپ سے عرض ہے کہ ہم سے انصاف کریں اور ہمیں یقین ہے کہ آپ انصاف کرینگے" 

" کیا یہ شخص سچ کہہ رہا ہے " سلطان کے ماتھے پر تیوریاں چڑھی ہوئیں تھیں اس نے اپنے وزیر خاص سے پوچھا تو وہ کانپتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھا اس نے لرزتی ہوئ آواز میں کہا 

" جی حضور یہ سچ کہہ رہا ہے لیکن" سلطان اس کی بات کو مکمل ہونے دیے بغیر کہا 

" سپاہیوں آج ہی اس کے بیٹے اور اسے قید خانے میں ڈال دیا جائے جو قوم کی مائوں بیٹیوں میں غلط نگاہ ڈالیں وہ ہمارے خیرخواہ کبھی نہیں ہوسکتے ایسوں کی جگہ قید خانہ ہے " سلطان کا چہرہ سلطانی جاہ و جلال سے دمک رہا تھا 

بوڑھے شریف نے شکرگذاری سے سلطان کی طرف دیکھا اس کی آنکھوں سے خوشی سے ایک آنسو گر پڑا 


کاش ! ہمارے ملک میں بھی ایسے حکمران آجائیں اور غریبوں کو انصاف مل سکے

اگر آپ یہ تحریر اچھی لگی ہو تو اس کو دوستوں کے ساتھ شیئر کریں